اردوئے معلیٰ

آج تک اس کا کیف طاری ہے

جو مدینے میں شب گزاری ہے

 

جام بھر بھر کے پی رہے ہیں سبھی

چشمۂ فیضِ عام جاری ہے

 

دل مدینے کی سمت جانے لگا

جب چلی بادِ نو بہاری ہے

 

امتی ہیں شفیعِ محشر کے

خوش نصیبی بڑی ہماری ہے

 

ہم کو پھر ابرہہ نے گھیر لیا

کعبۂ دل پہ سنگ باری ہے

 

شادمانی ہو یا پریشانی

لب پہ ہر دم درود جاری ہے

 

دونوں دنیاؤں میں کلیدِ نجات

ان کی سیرت پہ استواری ہے

 

منکرِ نورِ مصطفیٰ لا ریب

دوزخی ہے وہ شخص ناری ہے

 

اشک بن کے نکل اے خونِ جگر

خشک آنکھوں کی راہداری ہے

 

ہم کو ان کا خیال کچھ بھی نہیں

ان کو امت بہت پیاری ہے

 

ان کا شان و مقام کیا ہو گا

جن کی لوگو نبی سواری ہے

 

شیوۂ ختمِ مرسلیں مظہرؔ

چارہ سازی و غمگساری ہے

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے

اشتہارات

لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ

اردوئے معلیٰ

پر

خوش آمدید!

گوشے۔۔۔

حالیہ اشاعتیں

اشتہارات

اشتہارات