اردوئے معلیٰ

آنکھوں میں ہوں سراب تو کیا کیا دکھائی دے

پانی کے درمیان بھی صحرا دکھائی دے

 

بینائی رکھ کے دیکھ مری، اپنی آنکھ میں

شاید تجھے بھی درد کی دنیا دکھائی دے

 

دنیا نہیں نمائشِ میکانیات ہے

ہر آدمی مشین کا پرزہ دکھائی دے

 

آدم غبارِ وقت میں شاید بکھر گیا

حوّا زمینِ رزق پہ تنہا دکھائی دے

 

ق

 

جس انقلابِ نور کا چرچا ہے شہر میں

مجھ کو تو وہ بھی رات کا حربہ دکھائی دے

 

نکلو تو ہر گلی میں اندھیرے کا راج ہے

دیکھو تو کچھ گھروں میں اُجالا دکھائی دے

 

شطرنج ہے سیاست دوراں کا کھیل بھی

حاکم بھی اپنے تخت پہ مہرہ دکھائی دے

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے

اشتہارات

لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ

اردوئے معلیٰ

پر

خوش آمدید!

گوشے۔۔۔

حالیہ اشاعتیں

اشتہارات

اشتہارات