آنکھ ہجرِ شہِ دیں میں روتی رہے ، نعت ہوتی رہے
یونہی اشکوں کی مالا پروتی رہے ، نعت ہوتی رہے
اُن کی سیرت شب و روز احوال میں ، کشتِ اعمال میں
بیج اُن کی اطاعت کے بوتی رہے ، نعت ہوتی رہے
عشق روشن رہے دل کے ایوان میں ، خیمۂ جان میں
خاک میں جھلملاتا یہ موتی رہے ، نعت ہوتی رہے
موجِ لطفِ خدا میرے جذبات کو ، اور خیالات کو
بحرِ عشقِ نبی میں ڈبوتی رہے ، نعت ہوتی رہے
بادِ شہرِ عطا میرے انفاس میں ، میرے احساس میں
اُن کی قربت کی خوشبو سموتی رہے ، نعت ہوتی رہے
کاش مقبول ہوں یہ دردوں کے گُل ، پیشِ ختمُ الرُسُل
مجھ کو رحمت کی بارش بھگوتی رہے ، نعت ہوتی رہے
ہوں رواں ایسے شاہد کے نطق و قلم ، ہر گھڑی دم بہ دم
نعت ہوتی رہے ، نعت ہوتی رہے ، نعت ہوتی رہے