اردوئے معلیٰ

آگ سے آگ بجھانے کی تمنا کر کے

لوٹ آیا ہوں فقط درد کو رسوا کر کے

 

پھانس سی ہے کہ نکلتی ہی نہیں سینے سے

میں نے دیکھا ہے بہر طور مداوا کر کے

 

خود نمائی کا کوئی رنگ نہیں راس آیا

بڑھ گئی اور ندامت ہی تماشہ کر کے

 

میں مسیحائی کی تکلیف نہیں سہہ پایا

مر گیا ہوں میں ترے زخم کو اچھا کر کے

 

مت مجھے چھوڑ مرے حال پہ اس بار کہ میں

لوٹ کر آ نہیں پاؤں گا کنارہ کر کے

 

اور اب یوں ہے کہ سو جانے کو جی چاہتا ہے

اس گھنے درد کی شاخوں پہ بسیرا کر کے

 

میرا مت سوچ مری جان میں وہ ہوں کہ جسے

لوٹ جانا ہے تجھے خواب مہیا کر کے

 

تو نے بھی دیکھ لیا زخم لگا کر مجھ کو

میں نے بھی دیکھ لیا زخم گوارا کر کے

 

جانے وہ کون ہیں جو درد پہ ہنس سکتے ہیں

میں تو برباد ہوا جاتا ہوں ایسا کر کے

 

اب یہ عالم ہے کہ بجھتا نہیں جلتا بھی نہیں

تو نے اچھا نہ کیا آنچ کو ہلکا کر کے

 

دامنِ دل تو چلو چاک ہوا ہے پر میں

یوسفِ شعر ہوا تجھ کو زلیخا کر کے

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے

اشتہارات

لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ

اردوئے معلیٰ

پر

خوش آمدید!

گوشے۔۔۔

حالیہ اشاعتیں

اشتہارات

اشتہارات