اب تو تلاش ایسے کسی ہم سفر کی ہے
جس کو طلب فقط ترے ہی سنگ در کی ہے
مدحت حبیبِ پاک کی عاصی کرے گا کیا
مدحت کلام پاک میں خیر البشر کی ہے
دیکھا ہے جس نے حسن و جمالِ حبیبِ پاک
جچتی کب اس کو روشنی شمس و قمر کی ہے
دعویٰ ہے عاصیوں کو محبت کا آپ سے
یہ بھی عطائے خاص انہیں کی نظر کی ہے
مالک ترے کرم سے ہی ممکن ہے نعتِ پاک
ورنہ مجال ہی کہاں اس بے ہنر کی ہے
دیکھی ہے جب سے آپ کی جالی قریب سے
یادِ حسین آج تک اس پاک گھر کی ہے
رحمت ، خلوص اور شفاعت بھی وارثیؔ
کتنے مزے کی بھیک ترے پاک در کی ہے