اذاں میں اسمِ نبی سن لیا تھا بچپن میں
بسے ہوئے ہیں وہی ذی وقار دھڑکن میں
ترے ہی روپ گلوں کو دیئے گئے ہوں گے
مہک تری ہے چمیلی گلاب سوسن میں
عبیر و عود مطوّف و پرشد ترے پسینے کے
ختن کا مشک مہکتا ہے تیرے دھوون میں
قرار پاؤں گا قدمینِ شاہ میں گر کر
سنا ہے آئیں گے عالی جناب مدفن میں
رواں ہیں اشک، گناہوں کا بار کاندھے پر
ندامتوں کے سوا کچھ نہیں ہے دامن میں
جہاں سے صلِ علیٰ کی صدائیں آتی ہیں
بہت ملائکہ آتے ہیں ایسے آنگن میں
جو گردِ نقشِ کفِ مصطفیٰ کے لائق ہو
گلاب ایسا کوئی بھی نہیں ہے گلشن میں