اصحاب یوں ہیں شاہِ رسولاں کے اردگرد
جیسے ستارے ماہِ درخشاں کے اردگرد
باغِ جناں کی سیر کو جی چاہتا نہیں
پھیرے کیے ہیں ایسے گلستاں کے اردگرد
اک آنکھ سوئے عشق ہے اک آنکھ سوئے فرش
کونین ہیں ہمارے دل و جاں کے اردگرد
پروانہ بن کے آ گئے سدرہ سے جبرئیل
وہ نورِ حق ہے شمعِ فروزاں کے اردگرد
جب سے زیارت شہِ والا ہوئی نصیب
کونین بس گئے مرے ایماں کے اردگرد
حسنین یوں حضور کے آغوش و دوش پر
اعراب جیسے آیۂ قرآں کے اردگرد
روح الامیں سے سیکھئے آدابِ نعتِ پاک
برسوں رہے ہیں حضرتِ حسّاں کے اردگرد
حرمین پہنچا دیکھتے ہی کربلا صبیحؔ
کیا معجزے ہیں شاہِ شہیداں کے اردگرد