اعجاز مصطفٰی نے کیا کیا دکھا دیے ہیں
اَن پڑھ کیے معلِّم، ویراں بسا دیے ہیں
پتّھر کے بارہ چشموں سے ہے عجیب تر یہ
آقا نے انگلیوں سے دریا بہا دیے ہیں
چاند آئے گا ہمارا ، اس واسطے سرِ شام
ہم نے چراغ اپنے گھر کے بجھا دیے ہیں
راتوں کو رونے والے آقا نے تُربتوں میں
دلہن کی طرح اپنے بندے سُلا دیے ہیں
ڈھونڈا کریں ستارے خوشبوئے رہگزر سے
اس مہکے چاند نے یوں کوچے بسا دیے ہیں
کیونکر نہ پیشِ خضرٰی، شرمائیں چاند تارے
سورج کے آگے رکھتے اوقات کیا دییے ہیں ؟
زلف نبی کے بادل ! ، چھینٹا وصال کا دے
فرقت کی آگ نے تو اب دل جَلا دیے ہیں
جن کا قتیل عالم ، جو غم کے جال کاٹیں
اللہ نے نبی کو ابرو بھی کیا دیے ہیں
ارشادِ "عَلَّمَک ” سے ثابت ہوا مُعَظمؔ !
سارے علوم ان کو رب نے سِکھا دیے ہیں