الہامِ نعت ہوتا ہے چاہت کے نور سے
میرا قلم رواں ہے محبت کے نور سے
خاکِ مدینہ تاروں سے بڑھ کر حسیں ہوئی
سرکار کے نواسوں کی شوکت کے نور سے
آنے لگا ہے خضرٰی خیالوں میں دم بدم
الہام عنبریں ہے بلاغت کے نور سے
سر سبز ہو گیا ہوں اگرچہ خزاں تھا میں
خضرٰی کی دل نشین رفاقت کے نور سے
خوشبو کا ہے بسیرا مدینے کی خاک میں
مہکی ہوئی ہے مولا کی نکہت کے نور سے
توقیر بٹ رہی ہے جو سارے جہان میں
سب مل رہی ہے آقا کی عزت کے نور سے
بڑھتا ہی جا رہا ہے گلستاں میں نورِ گل
احمد کی بے مثال وجاہت کے نور سے
مدحت بیان کرنی ہو قائم تو یاد رکھ
الفاظ لا قران کی رفعت کے نور سے