اردوئے معلیٰ

امکان سے وسیع ہوئی ، قد سے سر بلند

قسمت ہوئی جو مدحتِ سرور سے ارجمند

 

جاتی نہیں ہے آپ کے نوکر سے نوکری

ہوتے نہیں ہیں آپ کے بندوں کے کام بند

 

آیا ہے پھر بُلاوا درِ خیر بار سے

یونہی نہیں ہیں زیست کے اظہار خند خند

 

نسلوں کو دے رہا ہُوں سعادت کی چاشنی

ذِکرِ حبیب شِیر ہے ، مدحِ حبیب قند

 

محشر ہے اور تلخیٔ محشر کا سامنا

لیکن ترا غُلام نہ ترساں نہ فکر مند

 

کیسا کریم ہے مرے مولا کا دستِ ناز

امیدوارِ خیر ہیں خُرسند و مستَمند

 

کیسے موازنہ ہو غنی و گدا کے بیچ

حرفِ نیاز چند ہیں ، رنگِ عطا دو چند

 

ایسا نہ ہو کہ تیری نجابت پہ آئے حرف

اے دل ! یہ شہرِ ناز ہے ، رہنا ہے ہوش مند

 

معراج کا سفر تھا تخیّل سے ماورا

قوسین میں اُلجھ گئی تمثیل کی کمند

 

بے حرف حیرتوں سے ہو کیا شعر کیا شغف

مقصودؔ ! اپنا مان ہے سرکار کی پسند

 

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ

اردوئے معلیٰ

پر

خوش آمدید!

گوشے۔۔۔