اردوئے معلیٰ

انداز زندگانی کے سارے بدل کے آ

’’یہ کوچۂ حبیب ہے پلکوں سے چل کے آ‘​‘​

 

اس در پہ آ غرور کو دل سے نکال کر

آتے یہاں ہیں کام عمل کب؟ سنبھل کے آ

 

کانِ کرم ہے شہرِ مدینہ کی سرزمیں

خاک اس کی واپسی پہ تو چہرے پہ مل کے آ

 

گر چاہیے تجھے بھی غلامی کی عظمتیں

اپنی انا کے خول سے باہر نکل کے آ

 

شہرِ رسولِ پاک میں ملحوظ رکھ ادب

یوں سیرتِ رسول کے سانچے میں ڈھل کے آ

 

اِک اُمتی کو کیوں نہ ہو اپنے نبی پہ ناز

زاہدؔؔ! ذرا حضور کے در پر مچل کے آ

 

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ