انداز زندگانی کے سارے بدل کے آ
’’یہ کوچۂ حبیب ہے پلکوں سے چل کے آ‘‘
اس در پہ آ غرور کو دل سے نکال کر
آتے یہاں ہیں کام عمل کب؟ سنبھل کے آ
کانِ کرم ہے شہرِ مدینہ کی سرزمیں
خاک اس کی واپسی پہ تو چہرے پہ مل کے آ
گر چاہیے تجھے بھی غلامی کی عظمتیں
اپنی انا کے خول سے باہر نکل کے آ
شہرِ رسولِ پاک میں ملحوظ رکھ ادب
یوں سیرتِ رسول کے سانچے میں ڈھل کے آ
اِک اُمتی کو کیوں نہ ہو اپنے نبی پہ ناز
زاہدؔؔ! ذرا حضور کے در پر مچل کے آ