ان کا الطاف اور کرم لے کر
جا رہے ہیں سوئے عدم لے کر
سر خمیدہ تھی سر اٹھانے لگی
زندگی نامِ محترم لے کر
سامنا کرتے ہیں حوادث کا
دل میں شاہِ ہدیٰ کا غم لے کر
غم کی حدت میں آگے بڑھتے چلو
ان کی توصیف کا علم لے کر
خار زارِ جہاں میں نکلا ہوں
نور و نکہت بھرا قلم لے کر
یہ فراقِ مدینہ کا ہے اثر
بیٹھ جاتا ہوں دو قدم لے کر
یادِ طیبہ طلوع ہوتی ہے
روز کاغذ پہ چشمِ نم لے کر
بس مدینے تلک رسائی ہو
کیا کریں گے بہشت ہم لے کر
وہ یقیناً مدد کو آتے ہیں
دیکھیے نامِ ذی حشم لے کر
میں مدینے سے لوٹ آیا ہوں
آنکھ میں زینتِ ارم لے کر
ہجرِ طیبہ کا غم بہت ہے مجھے
خوش ہوں مظہرؔ میں یہ الم لے کر