ان کے جمال کی کوئی کیا تاب لا سکے
شمس و قمر بھی جن کے مقابل نہ آ سکے
درجے میں کم نہیں ہے کوئی بھی نبی مگر
ان سا مقام انبیا سارے نہ پا سکے
دشنام کے جواب میں دیتے ہیں جو دعا
شیریں مقال ایسا نہ دنیا دکھا سکے
کوئی حسیں نہیں ہے کہ جیسے ہیں مصطفےٰ
ان کا نہ حسن آنکھ میں ہرگز سما سکے
آتے ہیں ان کے در پہ سبھی درد کو لیے
ہم تو شفا نہ اور کہیں سے بھی پا سکے
زاہدؔ کی یہ دعا ہے مدینے میں آ کے خود
دربار میں حضور کے نعتیں سنا سکے