اوج کے نقشِ چمن زار سے جا ملتا ہے
حرف جب مدحتِ سرکار سے جا ملتا ہے
منبرِ نُور سے کھِلتا ہُوا اِک خُلد کا رنگ
حُجرۂ قُدس کی دیوار سے جا ملتا ہے
راستہ بھُول کے بھی طائرِ خود رفتہ خُو
تیرے ہی دشت کے اشجار سے جا ملتا ہے
زیست اب دائمی انفاس کی تدبیر کرے
دستِ شافی کفِ بیمار سے جا ملتا ہے
خواب میں چھُو کے ترے شہرِکرم کی طلعت
شب گُزیدہ درِ انوار سے جا ملتا ہے
ایک ہی بار نمو پاتا ہے اِک حرفِ دُعا
مُدعا منظرِ صد بار سے جا ملتا ہے
کاسۂ چشم میں رخشاں ہے ترے کُوچے کی گرد
پھُول سا دل بھی سرِ خار سے جا ملتا ہے
جو رہا رفعتِ نعلینِ کرم سے محروم
سلسلہ اُس کا تو ادبار سے جا ملتا ہے
اس قدر وسعتِ خیرات ہے اُن کو زیبا
جُود خُود دامنِ نادار سے جا ملتا ہے
حاصلِ عرصۂ بیدارئ کُل ہے واللہ
لمحۂ خواب جو دیدار سے جا ملتا ہے
موجزن ہوتا ہے جب بحرِ شفاعت مقصود
موجۂ عفو گنہگار سے جا ملتا ہے