اُسوۂ ختم الرُّسُلْ سے جب ہو محکم رابطہ
دعویِ حُبِّ نبی ہو تب مجسّم رابطہ
سرورِ کونین کی اُلفت کا یہ فیضان ہے
سبز گنبد سے تصور میں ہے پیہم رابطہ
لفظ تو طیبہ میں لب پر آ نہیں پائے مگر
بن گئی دربار میں اشکوں کی شبنم رابطہ
آپ ہی تخلیقِ اوّل آپ ہی نورِ مبیں
آپ ہی مابینِ خالق اور آدم رابطہ
ماسوا سے رشتہ و پیوند کیوں باقی رہے
ذات سے اللہ کی جب ہو مقدم رابطہ
ہم فقیروں کی دعاؤں اور اثر کے درمیاں
ہو گیا حرفِ درودِ پاک مبرم رابطہ
شاہِ دیں کی چادرِ رحمت میں آنے کے لیے
لازماً اِک دن کرے گا سارا عالم رابطہ
ذلّت و رسوائی کا باعث ہے اُمت کے لیے
نقشِ پائے سرورِ دیں سے یہ مبہم رابطہ
اے خوشا قسمت کہ پایا موسمِ مدحت عزیزؔ
نعت کی خوشبو سے خامے کا ہے پیہم رابطہ