اُسوۂ سرکارِ دو عالم میں ڈھل جاؤں تمام
دین کی ترویج کی کوشش میں گزریں صبح و شام
ذُرّیت میری ہو اصحابِؓ محمد پر نثار
دین کی ترویج ہر بچّے کا ہو جائے شعار
ساری دنیا میں مرے سرکار کا ڈنکا بجے
کوئی ’’دین اللہ‘‘ کا باغی نہ دنیا میں رہے
رنگ میں اللہ کے سب رنگ جائیں خاص و عام
ساری دنیا میں چلے دینِ محمد کا نظام
سن سکوں میں یہ خبر اے کاش دنیا میں کبھی!
حاکمِ دوراں نے بیٹے کو سزائے جرم دی
عدلِ فاروقی کا دور اس طرح لوٹے دہر میں
خود تَفَقُّدْ کو امیرِ قوم نکلے شہر میں
حکمراں کوئی عمر عبدالعزیز ایسا بھی ہو
سادگی اپنا کے خود بھر دے جو بیت المال کو
ظلم کی راتیں کٹیں، مہرِ عدالت ہو طلوع
ہو اُخوت کا چلن روئے زمیں پر پھر شروع
بو رہا ہوں شہرِ طیبہ میں جو میں تخمِ دُعا
ہے یقیں نخلِ دُعا میں پھل بھی اِک دن آئے گا
عدل کا خورشید اُبھرے گا زمانے میں ضرور
ظلم کی تاریکیاں ہو جائیں گی اک روز دور
حاضری طیبہ کی مجھ پر رحمتیں برسائے گی
گلشنِ ملت پہ فصلِ گل بھی اِک دن چھائے گی
عظمتِ کردار پھر ہو جائے گی اُمت میں عام
جس کے صدقے میں ملے گا خوش نصیبی کو دوام
میں درِ آقا پہ بیٹھا دیکھتا ہوں وہ بھی دن
سر سے ٹل جائے گی اُمت کے ہر اِک ساعت کٹھن
پھر ریاضِ دین پر چھا جائے گی فصلِ بہار
تشنگانِ عدل کے دل کو ملے گا پھر قرار
دورِ اصحابؓ النبی کا رنگ پھر چھا جائے گا
چہرۂ گیتی پہ بھی اِک دن نکھار آجائے گا
میں اگر زندہ رہا احسنؔ تو دیکھوں گا ضرور
دینِ رب العالمیں کا دہر میں ہر سمت نور
ورنہ میری اگلی نسلوں کو وہ دن مل جائے گا!
جب تمنّاؤں کا میری اِک چمن کھل جائے گا!