اُن کے تیور وہی ہیں اتنی دل آزاری کے بعد
آج تو میں رو دیا احساسِ ناچاری کے بعد
آبرو کے مدعی تھے جان کے دشمن نہ تھے
دشمنوں کی قدر جانی آپ کی یاری کے بعد
رو چکا اے دل جواں مرگی پہ اپنی صبر کر
صبر ہی کرنا پڑے گا نالہ و زاری کے بعد
عشق کی توہین ہے درمانِ الفت کی تلاش
کہہ گئے چپکے سے یہ بھی میری غم خواری کے بعد
پیچھے پیچھے حشرؔ ہے آگے فریبِ آرزو
پھر چلا اُس کی گلی میں اس قدر خواری کے بعد