اُٹھے دیارِ نبی کی تڑپ جو سینے میں
بُلاوا جلد ہی آتا ہے پھر مدینے سے
خدا نے نعمتِ کُل سے تجھے نوازا ہے
ملے ہے سارے جہانوں کو اِس خزینے سے
جو مانگنا ہے درِ آلِ مصطفی سے تو سُن
بڑے ہی عجز سے اخلاص سے قرینے سے
فدا اگر نہ ہو ناموسِ شاہِ والا پر
ہماری موت ہے بہتر پھر ایسے جینے سے
ہے عمر آخری پہنچا ہوں تیرے در پہ شہا
نہ کرنا دور مجھے عافیت کے زینے سے
حریمِ دل ترے قرآں سے نور بار بھی ہو
وگرنہ کیا مجھے حاصل کسی شبینے سے
ہمارے مردہ بدن میں بھی جان آ جائے
ملیں وہ خوشبوئیں آقا ترے پسینے سے
حضور دور ہے طاعت گزاریوں سے شکیلؔ
حضور صرفِ نظر کیجئے کمینے سے