اردوئے معلیٰ

اپنے سر تیرے تغافل کا بھی الزام لیا ہے

خود فریبی کا ستم دل پہ کئی بار کیا ہے

 

دل نے اس طرح مداوائے غمِ عشق کیا ہے

اک نیا زہر ترے ہاتھ سے ہر روز پیا ہے

 

غم ترا مجھ کو جلاتا نہیں کرتا ہے منوّر

ہاتھ پر آگ نہیں یہ تو ہتھیلی پہ دیا ہے

 

عشق سچّا ہو تو کرتا ہے ہر اک قید سے آزاد

رشتہ جھوٹا ہے کہ جس نے تجھے زنجیر کیا ہے

 

گفتگو تلخ تھی اے چارہ گرو مان لیا یہ

لب مرے زخم نہیں تھے کہ جنہیں تم نے سیا ہے

 

زندگی تجھ کو شب و روز یوں سینے سے لگا کر

کوئی جی کر تو دکھائے میں نے جس طور جیا ہے

 

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے

اشتہارات

لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ

اردوئے معلیٰ

پر

خوش آمدید!

گوشے۔۔۔

حالیہ اشاعتیں

اشتہارات

اشتہارات