اک ایسے رہ نما آئے اک ایسے شہ سوار آئے
ہزاروں سال کی منزل جو پل بھر میں گذار آئے
رحیمی ہو تو ایسی ہو کریمی ہو تو ایسی ہو
عزیزوں، دوستوں کیا دشمنوں پر جس کو پیار آئے
شب اسریٰ نمازوں کی کمی بیشی بہانہ تھی
خدا خود چاہتا تھا میرا پیارا بار بار آئے