اک روز پتلیوں سے ہٹا دی گئی تھی نیند
تھوڑی سی عمر ، تھوڑی گھٹا دی گئی تھی نیند
مجھ کو کہا گیا کہ یہ آنکھوں کا رزق ہیں
دیمک تھے خواب جن کو چٹا دی گئی تھی نیند
ہم کند ذہن لوگ جنہیں یاد کچھ نہ تھا
فرصت کے روز و شب میں رٹا دی گئی تھی نیند
آنکھوں پہ سود اتنا بصارت کا چڑھ گیا
قرضے کی مد میں دوست کَٹا دی گئی تھی نیند
قدرت کو بے بسی پہ مری رحم آگیا
جب رتجگوں کا دن تھا چھٹا (6)، دی گئی تھی نیند