اک عہدِ گزشتہ کے کنارے پہ ٹِکا ہوں
گویا کہ میں سُولی کے سہارے پہ ٹِکا ہوں
اک وحشتِ پُر خار کی وادی پہ معلق
میں ہوں کہ توقع کے غبارے پہ ٹِکا ہوں
سو سنگِ گراں ڈوب چکے وزن سے اپنے
تنکا ہوں تبھی وقت کے دھارے پہ ٹِکا ہوں
دیکھا ہے نمُو نے بھی کئی روپ بدل کر
اک میں ہی زمیں نا می سیارے پہ ٹِکا ہوں
سیماب طبیعت ہوں مجھے چین کہاں ہے
لرزاں ہوں مگر تیرے اشارے پہ ٹِکا ہوں
بے انت خلاؤں میں تخیل کا قدم ہوں
پھسلا ہوں شہابوں پہ ، ستارے پہ ٹِکا ہوں
اب سانس بھی لوں میں ، تو بگڑتا ہے توازن
مشکل سے تھرکتے ہوئے پارے پہ ٹِکا ہوں