ایک برقی رو لہکتی ہے مرے احساس میں
جلوہ فرما تو ہے میرے پردۂ انفاس میں
کیوں نہ مل جائے اُسے لَا تَقْنَطُوْا کی پھر نوید
جب اُتر آئے کرم تیرا نگاہِ یاس میں
کیوں نہ بن جائے ہماری زندگی بھی اِک مثال
یاد تجھ کو گر رکھیں خُوش حالی و افلاس میں
تو ہویدا ہے اگر عُسرت زدوں کی آہ سے
بس گیا ہے متّقی اشخاص کی بُو باس میں
ملّتِ بیضا کا ہے روح و رَواں تیرا خیال
تیرے دم سے زندگی ہے قوم کی ہر آس میں
تُو نے سرکارِ دو عالم میں انھیں یکجا کیا
وہ خصائص جو تھے نوحؑ و عیسیٰؑ و الیاسؑ میں
تیرے ہی دم سے طبائع میں بھی پیدا اختلاف
ہے تنوّع لذتوں کا گر تمام اجناس میں