اے جانِ ردائف ! دلِ انواعِ قوافی !
تاسیسِ بلاغت ہے ترا گفتۂِ صافی
جب تیرا غضب رب کا غضب ہے ، تو یقیناً
ہے عفوِ خداوند شہا ! تیری معافی
تقلید تری مُثبِتِ معراجِ بشر ہے
تعلیم تری خوئے بہیمانہ کی نافی
کیا اوجِ تفقہ ترے بندوں کا ہے شاہا!
شامی ہے کوئی ، کوئی رضا کوئی قَرافی
ہر عیب سے روکا ہے تری شرعِ حسیں نے
میسِر ہو ، نجاست ہو ، کہ ہو ماہیِٔ طافی
ہر خصلتِ بد تیرے محاسن نے مٹائی
دھوکہ ہو ، فحاشی ہو ، کہ ہو وعدہ خلافی
اعجازِ لبِ شہ تو ہے اعجازِ لبِ شاہ
اَموات کے اِحیا کو ہے ٹھوکر یہاں کافی
ایمان معظم کا نہ چِھن جائے کریما !
تحفے سے رجوع آپ کی شاں کے ہے منافی
وابستۂِ اِفتا ہوں میں ویسے تو معظم
اور شعر نگاری ہے مِرا وصفِ اضافی