اردوئے معلیٰ

اے قدیرِ قدرتِ بیکراں مجھے اذنِ عرضِ سوال دے

یہ جو شمسِ قہر ہے اوج پر اسے تُو ہی حکمِ زوال دے

 

تری خلق ہیں سبھی خشک و تر تو ہی حکمراں ہے جہان پر

ترے تحتِ امر ہیں بحر و بر مری مشکلات کو ٹال دے

 

تجھے واسطہ ہے حبیب کا تری رحمتوں کے نقیب کا

ہے مرا غنیم عجیب سا مجھے حوصلہ ،مجھے ڈھال دے

 

ہیں مریضِ غم ترے بندگاں جو گھروں میں بند ہیں بے گماں

وہ پسارے بیٹھے ہیں جھولیاں کہ شفا کی بھیک تُو ڈال دے

 

یہ فساد ہے جو مچا ہوا ہے بشر کا اپنا کیا دھرا

جو نگل رہی ہے اسے وبا سبھی بستیوں سے نکال دے

 

ہے عجب یہ آفتِ نا گہاں کہیں بھوک ہے کہیں خوفِ جاں

ہوئیں تنگ جن کی بھی روزیاں انہیں تُو ہی رزقِ حلال دے

 

جو اجڑ گئی ہیں وہ مجلسیں جو بچھڑ گئی ہیں وہ سنگتیں

انھیں کر عطا وہی رونقیں انھیں سوز و سازِ وصال دے

 

ہو بہار پھر سے نگر نگر ہوں قرار میں سبھی بام و در

تری رحمتوں پہ ہے ہر نظر سبھی ظلمتوں کو اجال دے

 

جو ہوئیں خطائیں معاف کر تو بحال پھر سے مطاف کر

مری روح وقفِ طواف کر یوں ظفر کو حسنِ مآل دے

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ

اردوئے معلیٰ

پر

خوش آمدید!

گوشے۔۔۔