اے مکینِ گنبدِ خضرٰی ، نبیِ محترم
استعارہ ہیں تمھارے نور کا ، لوح و قلم
نعت کی صورت بنے ، اب بھیک دیں ادراک کی
اے مسیحاے دلِ آزردگاں کر دیں کرم
آیۂ فَلْیَفْرَحُوْا اور آیۂ ذِکرَک تلے
جاری و ساری رہے گا ذکرِ سرور دم بہ دم
خیر زا ہیں خیر خو ہیں مرجعِ ہر خیر ہیں
ان کے در سے پا رہے ہیں فیض عاصی یم بہ یم
مژدۂ جاؤک دیتا ہے فقیروں کو اماں
حرز گاہِ خیر ہے تیرا درِ والا کرم
اوج پر ہیں صاحبِ کوثر کے در سے بخششیں
وہ ہیں بحرِ عفو و رحمت قاسمِ جملہ نعم
اُن کے مداحوں کا یہ ایمان ہے ایقان ہے
حشر میں بھی سایۂ غفران ہے ان کا علم
حسنِ کل ہیں رحمتہ للعالمیں ہیں نور ہیں
اُن کی تعریف و ثنا میں جو بھی لکھوں وہ ہے کم
دے رہے ہوں گے ہمیں وہ ربِ سَلِم کی دعا
وجد میں گزریں گے پُل سے ہم ، نہ ہو گا کوئی غم
قبلِ کارِ نعت تھا اک منظرِ گُم گشتہ میں
اب مری پہچان ہے بس مدحتِ شاہِ امم