بات یوں ہے کہ اب دل سلامت نہیں
صاحبو کیا ہے یہ گر قیامت نہیں
کج کلاہی کی عادت کا اعجاز ہے
اب ہمارا کوئی قد و قامت نہیں
دل تو کم بخت خود شعبدہ ساز ہے
عشق اس کے لیے کچھ کرامت نہیں
شکوہِ بے رخی ہم سے بے سود ہے
اب تو خود سے بھی صاحب سلامت نہیں
آپ چاہیں تو پھر نظرِ ثانی کریں
ہم کو اپنے کیے پر ندامت نہیں
دل کی وحشت کی بنیاد کیا ڈھونڈتی
زندگی تیری اتنی قدامت نہیں
حسن کیا چیز ہے وقت کے سامنے
تو قیامت سہی تاقیامت نہیں