باجرے کی جو اک خشک روٹی ملی ، اس میں چڑیوں کا حصہ بھی رکھتے رہے
کتنی چھوٹی سی بستی تھی بستی مری ، اور بستی میں کتنے بڑے لوگ تھے
اوس موتی نما ، اشک موتی نما ، اور پیشانیوں کا پسینہ گہر
شہر کیا تھا جڑاو گُلو بند تھا جس میں موتی کے جیسے جڑے لوگ تھے
وقت کے تازیانوں کی بوچھار میں ، سر جھکائے زمیں چیرتے ہی رہے
وار ہوتے رہے کہ کڑا وقت تھا ، وار سہتے رہے کہ کڑے لوگ تھے
گرد سے طاق نسیان کے اٹ گئے ، نقش لیکن ابھی تک نگاہوں میں ہیں
وقت کی آندھیوں کے بدن چِر گئے ، کیا صنوبر کے جیسے کھڑے لوگ تھے