اردوئے معلیٰ

باجرے کی جو اک خشک روٹی ملی ، اس میں چڑیوں کا حصہ بھی رکھتے رہے

کتنی چھوٹی سی بستی تھی بستی مری ، اور بستی میں کتنے بڑے لوگ تھے

 

اوس موتی نما ، اشک موتی نما ، اور پیشانیوں کا پسینہ گہر

شہر کیا تھا جڑاو گُلو بند تھا جس میں موتی کے جیسے جڑے لوگ تھے

 

وقت کے تازیانوں کی بوچھار میں ، سر جھکائے زمیں چیرتے ہی رہے

وار ہوتے رہے کہ کڑا وقت تھا ، وار سہتے رہے کہ کڑے لوگ تھے

 

گرد سے طاق نسیان کے اٹ گئے ، نقش لیکن ابھی تک نگاہوں میں ہیں

وقت کی آندھیوں کے بدن چِر گئے ، کیا صنوبر کے جیسے کھڑے لوگ تھے

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے

اشتہارات

لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ

اردوئے معلیٰ

پر

خوش آمدید!

گوشے۔۔۔

حالیہ اشاعتیں

اشتہارات

اشتہارات