اردوئے معلیٰ

بازی گران و شعبدہ بازو، نوید ہو

ہم اپنے معجزات کے ہاتھوں فنا ہوئے

 

ہم بے مثال لوگ تھے کیا مارتا کوئی

ہم لوگ اپنی ذات کے ہاتھوں فنا ہوئے

 

چھوٹی سی ایک بات رہی تجھ کو اور ہم

چھوٹی سی ایک بات کے ہاتھوں فنا ہوئے

 

حیراں کھڑی ہوئی ہے سرہانے پہ موت بھی

ہم ہیں کہ جو حیات کے ہاتھوں فنا ہوئے

 

جو ہو چکا وہ ظلم سہا جا چکا مگر

کچھ خواب ممکنات کے ہاتھوں فنا ہوئے

 

ہم مطمئن تھے کرب کے مرکز کو کاٹ کر

پر اس کی باقیات کے ہاتھوں فنا ہوئے

 

اپنے پروں کے رنگ بچے تیرے ہاتھ پر

ہم تیرے التفات کے ہاتھوں فنا ہوئے

 

یکلخت جیسے پھوٹ بہی غم کی تیرگی

منظر سیاہ رات کے ہاتھوں فنا ہوئے

 

کیا خودکشی نہیں؟ کہ ترے شاعرِ جنوں

اپنے تصورات کے ہاتھوں فنا ہوئے

 

آخر کو داستان ہوئے ، داستان گو

کردار واقعات کے ہاتھوں فنا ہوئے

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ