اردوئے معلیٰ

بخت لگتا ہے کہ یاور ابھی ہونے لگا ہے

روبرو نور کا پیکر ابھی ہونے لگا ہے

 

میں بھی تو شہرِ کرم بار کے رستے میں ہوں

سنگریزہ تھا تو گوہر ابھی ہونے لگا ہے

 

وہ جو اک تاج سرِ عجز ہے نعلینِ کرم

دیکھنا نازشِ اختر ابھی ہونے لگا ہے

 

میرے بیٹے کو بھی اب نعت کی تلقین کریں

وہ مرے قد کے برابر ابھی ہونے لگا ہے

 

اُن کی زلفوں میں چمکتا ہوا نوری قطرہ

شیشۂ دل پہ سمندر ابھی ہونے لگا ہے

 

میرے گھر آنے لگے ہیں یہ پیامی جھونکے

میرا گھر بار معطر ابھی ہونے لگا ہے

 

دل کہ بیمار تھا، پژمردہ تھا ، افسردہ تھا

آپ کی یاد سے بہتر ابھی ہونے لگا ہے

 

ذرا سوچاہی تھا مقصودؔ کہ اک نعت لکھوں

خامۂ شوق منور ابھی ہونے لگا ہے

 

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے

اشتہارات

لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ

اردوئے معلیٰ

پر

خوش آمدید!

گوشے۔۔۔

حالیہ اشاعتیں

اشتہارات

اشتہارات