بس ایک نعت کہی بے زبان سانسوں نے
مٹا دیے مرے باقی نشان سانسوں نے
دمِ وداع نے کھینچا ہے مقطعِ مدحت
خُدا کا شکر کہ رکھا ہے مان سانسوں نے
رواں رہا رگِ جاں میں وہ اسمِ خیر افزا
یقیں میں ڈھالے ہیں سارے گمان سانسوں نے
خیالِ نعت نے تاروں سے کی ثنا گیری
سخن میں باندھا کوئی آسمان سانسوں نے
مہک رہے ہیں بہ رنگِ ثنا گُلِ نُدرت
اُگا دیا ہے کوئی گُلستان سانسوں نے
وہ اسمِ پاک وسیلہ بنا ہے بخشش کا
کیا ہے جب بھی اُسے ترجمان سانسوں نے
حیات نے اُسے جانا تھا موجِ روحِ رواں
کہا ہے بڑھ کے اُسے جاں کی جان سانسوں نے
وہ آ بسیں گے کسی ساعتِ نوید کے ساتھ
سنبھال رکھا ہے تن کا مکان سانسوں نے
سفینہ جب بھی ہُوا ہے سپردِ موجِ فنا
بنایا نعت کا اِک بادبان سانسوں نے
تمام دھڑکنیں بنتی گئیں حروفِ نیاز
درود پڑھ کے لکھی داستان سانسوں نے
ہدف رکھا غمِ محشر کو بے خطا مقصودؔ
جب اُن کے نام کی کھینچی کمان سانسوں نے