بنے دیوار آئینہ ترے انوار کے باعث
بیاباں ہوں چمن صورت ترے رخسار کے باعث
مریضوں کو مسیحا گر بناتا ہے ترا بیمار
گداؤں کو ملے شاہی ترے نادار کے باعث
بہ فیضِ گفتۂِ جانِ تکلم ہے سخن زندہ
سلامت ہیں معانی حاصلِ گفتار کے باعث
ترا صدیقِ اکبر کب کسی تعریف کا محتاج
ہے روشن جس کا رتبہ ” اِذھُمَا فِی الغَار ” کے باعث
ترے فاروق کے دم سے بہارِ بوستانِ عدل
کرم مہکا ترے عثمان کی مہکار کے باعث
شجاعت،علم،حکمت اور ولایت کے سلاسل سب
جہاں نے پائے تیرے حیدرِ کرار کے باعث
غرض جو ہیں محاسن ظاہری و باطنی شاہا !
وہ سب پھیلے ترے خدام کے کردار کے باعث
اَنا خَیرٌ کے نعرے کا مآل اچھا نہیں زاہد !
ہوا لعنت زدہ شیطان اسی پندار کے باعث
شبِ فنِّ معظمؔ میں ہے ضَو ماہِ بریلی سے
معطر ہے تخیل نسبتِ عطار کے باعث