بُلائیں جب تمہیں شاہِ اُمَم مدینے میں
جبینِ شوق ہو خم ،آنکھ نم مدینے میں
ہو گفتگو میں سلیقہ ، زباں ہو شائستہ
درُودِ پاک رہے دَم بہ دَم مدینے میں
قدم قدم پہ فرشتوں نے پَر بچھائے ہیں
ذرا سنبھال کے رکھنا قدم مدینے میں
تری طلب سے زیادہ تجھے نوازیں گے
اُمڈ رہے ہیں بحُورِ کرم مدینے میں
زمیں پہ ٹکتے نہیں پاؤں ایک پل کے لیے
ستارے لگتے ہیں زیرِ قدم مدینے میں
ہوائے طیبہء اطہر بھی کیمیا گر ہے
کہ سیم و زر ہوئی ریگِ عجم مدینے میں
تھکا نہ پائی مسافت ہمیں مدینے کی
سفر کے بعد ہوئے تازہ دَم مدینے میں