بھٹک رہا تھا زمانہ درِ خدا نہ ملا
شہِ مدینہ کا جب تک نہ آستانہ ملا
خرد کو علم سے نکتہ یہ عارفانہ ملا
اُسے خدا نہ ملا جس کو مصطفیٰ نہ ملا
ہماری زمزمہ سنجی کو اک ترانہ ملا
ہماری روح کی تسکیں کو پنجگانہ ملا
فلاحِ زیست کو اک دین عادلانہ ملا
رسولِ پاک کے صدقہ میں ہم کو کیا نہ ملا
مرے نبی کے برابر نبی نہیں کوئی
مجھے وہ ختم رسل یکتا و یگانہ ملا
انھیں کے ہاتھوں ملا ہے صحیفۂ قرآں
نہ ختم ہو جو کبھی ہم کو وہ خزانہ ملا
ملا ہے خاک میں شاہوں کا سب غرورِ شہی
ترے گداؤں کو وہ تاجِ خسروانہ ملا
وہ ارجمند ہے وہ خوش نصیب ہے لاریب
نبی کے شہر کا جس جس کو آب و دانہ ملا
بروزِ حشر ہم عاصی بھلا کہاں جاتے
انھیں کے دامنِ رحمت میں بس ٹھکانہ ملا
نگاہِ لطفِ خدا، کیفِ جاں، سُرورِ دل
نظرؔ کو اُن کی ثنا کا یہ محنتانہ ملا