بیٹھے ہیں ترے در پہ غلاموں پہ نظر ہو
تم والیِ کونین ہو تم نازِ بشر ہو
مدت سے ترے شہر کے انوار نہ دیکھے
مژدہِ کرم اب تو ملے اذنِ سفر ہو
بِن تیرے جو گزری ہے وہ ناشاد و پشیماں
باقی جو بچی ہے ترے قدموں میں بسر ہو
یہ اُن کی عطا ہے کہ ملی نوکری مجھ کو
وہ دیکھتے کب ہیں کہ کوئی وصف و ہنر ہو
بس انکو ہی مانا ہے ہمیں ان سے ہے مطلب
ہم کب ہیں جنہیں رونقِ دُنیا کا اثر ہو
دل تیرے تصور سے چمک اُٹھتا ہے میرا
ہو’’ نور علٰی نور ‘ ‘اگر تیرا گذر ہو
اُنْظُر کہوں آقا کبھی اَدْرِکْنِیْ پکاروں
یہ ورد وظیفہ ہی مرا شام و سحر ہو
خالی ہے شکیلؔ اب بھی یہ دامن دمِ رخصت
اُس شاہِ غریباں مرے آقا کو خبر ہو