بے سبب کب کسی سے ملتا ہے
خود غرض کام ہی سے ملتا ہے
دردِ سر ، سر بسر ہے آقائی
کیفِ دل بندگی سے ملتا ہے
دین و دنیا میں ہر بلند مقام
بس تری پیروی سے ملتا ہے
سلسلہ ظاہری ہے یہ جتنا
پردۂ غیب ہی سے ملتا ہے
دل کو کیفِ تمام و سوزِ مدام
جذبۂ عاشقی سے ملتا ہے
ہے تکبر متاعِ رسوائی
مرتبہ عاجزی سے ملتا ہے
جو بھی ہے اس نظرؔ کا گرویدہ
دل مرا بس اسی سے ملتا ہے