اردوئے معلیٰ

تارِ ربابِ دل میں نبی کی ہیں مِدحتیں

قربان کردوں اِن پہ جہاں بھر کی عظمتیں

 

خوشبو مرے قریب ہی رہتی ہے روز و شب

میں نے نبی کی نعت سے پائی ہیں رفعتیں

 

الہام کا ہے ایک تسلسُل شعور پر

اب وجد میں ہیں میری مدینہ کی حسرتیں

 

مدحِ نبی کے نور سے واقف قلم ہوا

پہلے کہاں تھیں نوکِ قلم کی یہ نکہتیں

 

یہ کہکشاں ستارے، نبی کی ہیں رہ گزر

ورنہ کہاں حسیں تھیں یہ فطرت کی فطرتیں

 

جتنے ہیں آسماں پہ ستاروں کے یہ دیے

اتنی عطا ہو مجھ کو بھی مدحت میں کثرتیں

 

دیدارِ مصطفیٰ کی شرابِ طہور دے

ایسی مری نظر کو عطا کر دے قدرتیں

 

قائم جو ہوتا خاک درِ شاہِ دین کی

نعلین رکھتے مجھ پہ تو مل جاتیں نزہتیں

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ