تجھے بس دیکھتے رہنا بھی اک کارِ عبادت ہے
تری آنکھوں سے طیبہ دیکھتا ہوں کیا سعادت ہے
شہِ کونین کو اے بے خودی تو نے کیے سجدے
مدینے کو ترا کعبہ کہوں تو کیا قباحت ہے
حطیمِ پاک میں میزابِ رحمت یوں برستا ہے
اسے بھی ہر گھڑی حاصل مدینے سے ارادت ہے
خدا نے خلد سے اے سنگِ اسود تجھ کو بھیجا ہے
ہے کہنے کو تو اک پتھر مگر عالی نجابت ہے
بنو شیبہ پہ بھی قسمت نے کیسی یاوری کی ہے
نصیب ان کو باذن اللہ تری عالی حجابت ہے
میں اس کی شان میں جو کچھ کہوں اس سے سوا ہے وہ
مرے مولا علی حیدر کی جو جائے ولادت ہے
دمِ آخر ترا منظر سجا ہو میری آنکھوں میں
بہ فضلِ کبریا پوری ہو منظرؔ کی جو حاجت ہے