تجھ کو بھی ذوقِ سیر و تماشا ہے تو بتا
اگلا پڑاؤ عشق ہے ، چلنا ہے تو بتا
کام آپڑا ہے یار مجھے اِک درخت سے
جنگل میں کوئی جاننے والا ہے تو بتا
بیٹھی ہے اچھے بَر کے لیے کب سے شام ِ غم
تیری نظر میں کوئی اُجالا ہے تو بتا
تجھ سے نطر ہٹا کے میں اُس پر نظر کروں
دنیا میں کوئی بھی ترے جیسا ہے تو بتا
دروازہ کھول دوں کہ لگا دوں میں چَٹخنی؟
جانا ہے تو بتا دے ، ٹھہرنا ہے تو بتا
فرصت بھی ہے، بہار بھی، خلوت بھی، شام بھی
غزلیں بھی اور جام بھی ، ملنا ہے تو بتا
مانا کہ جانثار ترے بے شمار ہیں
کوئی بھی مُجھ سے بڑھ کے دوانہ ہے تو بتا
جھونکا ہوں اور محوِ سفر ہوں میں دم بدم
اے خوشبوئے اسیر! بکھرنا ہے تو بتا
صحرا ہے جس کو دل میں لیے پھر رہا ہوں میں
اے یار! تیری آنکھ میں دریا ہے تو بتا
منزل تلک پہنچنا مری آرزو نہیں
فارس! بھٹکنے کا کوئی رستہ ہے تو بتا