اردوئے معلیٰ

رگِ جاں میں

تحیر سا اُتر آیا اُس اک پل میں

کہ جب یکلخت میرے دل پر اُن کا نقشِ پا اُبھرا

تحیر میں تھا

ششدر، لرزہ بر اندام تھا اُس پَل

کہ یہ قلبِ سیہ میرا ،اور اس پر نعلِ پاک اُن کا؟

یہ دل تھا مخمصے میں تب

یہ دھڑکے یا کہ رک جائے

پھر اک آواز نے کانوں میں جیسے رس کوئی گھولا

حضورِ رحمتہ للعالمین بس یہ وظیفہ پڑھ

’’تنم فرسودہ جاں پارہ ز ہجراں، یا رسول اللہ‘‘

مرے چاروں طرف جیسے کوئی قوسِ قزح اتری

طلسمی کیفیت میں

میں پکارا یارسول اللہ

اغثنی یارسول اللہ ، اغثنی یارسول اللہ

صدائے عجز میں اک کیف تھا

اک چاشنی سی تھی

وہی بادِ صبا

بالکل وہی بادِ صبا گزری

مرے چہرے کو چھوتی

جو کرم کے شہر میں، صحنِ حرم میں لہلہاتی ہے

مشامِ جانِ بردہ کو معطر کرتی جاتی ہے

سرِ دیوار آویزاں اس آبِ نعلِ آقا پر

میں بس اک ٹکٹکی باندھے

کبھی جو سوچتا ہوں وصل کے پر کیف لمحوں کو

تحیر سا اُترتا ہے

رگِ جاں میں اس اک پل میں

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے

اشتہارات

لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ

اردوئے معلیٰ

پر

خوش آمدید!

گوشے۔۔۔

حالیہ اشاعتیں

اشتہارات

اشتہارات