ترستی تھیں ترے دیدار کو نظریں ، زمانے سے
’’عجب رونق سی چھائی ہے ترے محفل میں آنے سے‘‘
مہکتے ہیں گلی کُوچے ، جدھر سے تُو گزر جائے
ترے جسمِ معطر میں ہیں خوشبُو کے خزانے سے
گدا ہوتے نہیں ہیں مطمئن شاہوں کی چوکھٹ پر
سبھی کا ہے بھرا کاسہ ترے ہی آستانے سے
جو اماں عائشہ کی سوئی کھو جائے اندھیرے میں
تو مل جاتی ہے فوراً ہی تمہارے مسکرانے سے
جنابِ مرتضٰی کی جب نمازِ عصر چھوٹی ہو
پلٹ آتا ہے سُورج آپ کے واپس بلانے سے
گھروں کے بام و در آقا ! جہاں کو نُور دیتے ہیں
جو رہتے ہیں سدا روشن تری محفل سجانے سے
گھرا ہوں بحرِ عصیاں کی تلاطم خیز موجوں میں
کرم کر دیں مرے آقا ! بچا لیں ڈوب جانے سے
کلامِ پاک کی رُو سے منافق ہے ، منافق ہے
جو کترائے مرے آقا ! تمہاری سمت آنے سے
زمانہ اپنی پلکوں پر بٹھاتا ہے جلیل اُس کو
جسے نسبت مودّت کی ہے آقا کے گھرانے سے