تری رحمت سے اذنِ حاضری کی جب خبر آئی
یکایک چاندنی صحنِ تمنا میں اتر آئی
وفورِ ہجرِ سے رکنے لگا تھا میرا دل لیکن
شبیہِ نقشِ نعلِ پاک اس دل پر ابھر آئی
مری آنکھیں مچل اٹھیں گی شوقِ دیدِ طیبہ میں
کسی زائر کی گردِ رہ گزر، ان میں اگر آئی
زباں پر آنے والی تھی صدائے السلام آقا
مگر چشمِ عقیدت اس سے پہلے عود کر آئی
شرف یہ تھا کہ میں عصیاں کا مارا جاؤں گا طیبہ
مگر جب بستۂ اعمال پر میری نظر آئی
بروزِ حشر بائیں ہاتھ میں نامہ دیا جاتا
شفاعت سرورِ عالم کی اس سے پیشتر آئی
لگی جب آنکھ میری گنبدِ خضری کے سائے میں
درونِ خواب فردوسِ بریں مجھ کو نظر آئی
مرے حالات پر آقا نے یوں چشمِ کرم ڈالی
مرادِ قلبِ مضطر بھی بغیرِ عرض بر آئی
خدا کا شکر ہے منظرؔ میں شہرِ مصطفی میں ہوں
سند بخشش کی میرے ہاتھ کیسی معتبر آئی