اردوئے معلیٰ

تری فضیلت کو اس لئے بھی مرے حوالے سے جانا جائے

دیا ضروری ہے پہلے پہلے جلانے والے سے جانا جائے

 

بہت غنیمت ہیں ہم سےملنے کبھی کبھی کے یہ آنے والے

وگر نہ اپنا توشہر بھر میں مکان تالے سے جانا جائے

 

شجر سے میں نے جو شاخ کاٹی شجر بنانے کی ٹھان لی ہے

مری خطا کو خدارا اب تو مرے ازالے سے جانا جائے

 

یہی تو دریا کو ترک کرکے یہاں تک آنے میں مصلحت ہے

کہ میرے حصہ کی تشنگی کو ترے پیالے سے جانا جائے

 

بڑی اذیت کے بعد آتا ہے آشنائی کا یہ قرینہ

جو خار رستے میں آئے اس کو اسی کے چھالے سے جانا جائے

 

بصارتوں کو بصیرتوں کی سند نوازی گئی ہے اظہرؔ

یہی نہ ہو شہرِکم نظر میں سفید کالے سے جانا جائے

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ