ترے در پہ آنسو بہانے بہت ہیں
مجھے زخم دل کے دکھانے بہت ہیں
پسارا نہیں ہم نے دامن کہیں بھی
ہمیں مصطفےٰ کے خزانے بہت ہیں
محمد سے جس نے بھی کی ہےمحبت
ملے اس کو رب سے ٹھکانے بہت ہیں
مجھے اور کیا چاہیے میرے آقا
مرے لب پہ تیرے ترانے بہت ہیں
چلو شہرِ طیبہ کو چلتے ہیں زاہدؔ
کہ منظر وہاں کے سہانے بہت ہیں