اردوئے معلیٰ

تصور منتہی ہو جائے جس پر رنگ و نکہت کا

وہ دلکش پھول ہے تو ہی گلستانِ نبوت کا

 

نمونہ حُسنِ سیرت کا، مُرقّع حُسنِ صورت کا

وجودِ پاک ہے شہکارِ نادر دستِ قدرت کا

 

وہ چشمہ نورِ عرفاں کا خزینہ علم و حکمت کا

کھلا مخزن پئے دنیا گہر ہائے حقیقت کا

 

دیا تاجِ شرف انساں کو بخشا تخت عزت کا

زمانہ سے مٹایا اس نے فتنہ بربریت کا

 

پڑھایا نوعِ انساں کو سبق عشق و محبت کا

ستارہ اس سے روشن ہے عروجِ آدمیت کا

 

مٹایا ظلم انسانوں پہ انساں کی حکومت کا

کیا واضح تصور اک خدا کی حاکمیت کا

 

وہ مسکینی کے عالم میں بھی عالم اس کی صولت کا

لرز اٹھا دلِ سطوت جھکا سر کبر و نخوت کا

 

ہوئی نازل کتاب اللہ اس کی ذاتِ اقدس پر

مکمل پیش کرتی ہے جو نقشہ دینِ فطرت کا

 

بھریں گے اپنا دامن حشر تک اہلِ طلب اس سے

لٹایا وہ گراں گنجینہ اس نے علم و حکمت کا

 

اسی سے مقتبس ہے محفلِ مہر و مہ و انجم

اسی کے نور ہی سے تو ہے سینہ چاک ظلمت کا

 

خطابِ رحمۃ اللعٰلمیں بخشا گیا اس کو

بنایا رب نے مظہر اس کو اپنی شانِ رحمت کا

 

بقدرِ ظرفِ مستی جو بھی جتنا پی سکے پی لے

برابر چل رہا ہے دور اس کے جامِ وحدت کا

 

ہزاروں امتیں گزریں ملا ایسا شرف کس کو

لقب امت کو اس کی ہی ملا ہے خیرِ امت کا

 

جلالِ حق سرِ محشر وہ ہیبت خیزی منظر

پھرے گا ڈھونڈتا ہر اک ترا دامن شفاعت کا

 

نظرؔ پر بھی عنایت کی نظر کیجے شہِ والا

اسے بھی شوق بے حد ہے مدینہ کی زیارت کا

 

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے

اشتہارات

لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ

اردوئے معلیٰ

پر

خوش آمدید!

گوشے۔۔۔

حالیہ اشاعتیں

اشتہارات

اشتہارات