تمھاری گلیوں میں پھر رہے تھے اسیرِ درد و خراب ہجراں
ملی اجازت تو آ گئے پھر حضورِ عشق و جناب ہجراں
وہ ملنے جلنے کی ساری رسمیں در اصل فرقت کے سلسلے تھے
گئے دنوں کی رفاقتوں میں چھپا ہوا تھا سراب ہجراں
مٹے نہیں ہیں حروفِ ظلمت، ابھی گریزاں ہے صبح برات
ابھی پڑھیں گے کچھ اور بھی ہم دیارِ غم میں کتاب ہجراں
وفا شعاری کے مرحلوں سے پلٹ کے جب کامیاب آئے
ہوا مقرر نئے سرے سے شکیب دل پر نصاب ہجراں
یہ تیرے میرے لہو کی ساری کثافتوں کو نتھار دے گا
ہماری راہوں کے درمیاں میں رواں دواں ہے جو آب ہجراں
وہ دن بھی تھے جب مرا تعارف غزال چشموں کے زیب لب تھا
اور آج ان کی ہر انجمن سے ملا ہوا ہے خطاب ہجراں
ہمیں امید جزا ہے اُن سے، اسی لئے تو ظہیرؔ ہم نے
غزل کے شعروں میں لکھ دیا ہے شمارِ درد و حساب ہجراں