تمھارے نور کا صدقہ ملا ہے ان ستاروں کو
سلامِ عاجزانہ پیش ہے ان چار یاروں کو
یقینا چوم کر آتی ہے تیرے سبز گنبد کو
تبھی بادِ صبا چھیڑے ہے میرے دل کے تاروں کو
مہک اٹھے مدینہ جانے والے سارے ہی رستے
کیا جب آپ نے زیرِ قدم ان ریگ زاروں کو
کہیں جبریل آتے ہیں کہیں صدیق جاتے ہیں
مشرف آپ نے کیسا کیا ان دونوں غاروں کو
کوئی بھی خوف اب باقی نہیں خدام کو آقا
تمھارے ہیں یہ دولت کم ہے کیا ہم بیقراروں کو
خزاں پابند ہے طیبہ میں داخل ہو نہیں سکتی
مسلسل حاضری کا اذن ہے حاصل بہاروں کو
خدارا ہم کو بھی نارِ جہنم سے بچا لینا
تمہارا ہی سہارا ہے وہاں ہم دل فگاروں کو
مدینہ جانے والے جاتے ہیں ہر سال جاتے ہیں
کبھی تو بھیج دو اذنِ سفر ہم غم کے ماروں کو
نہائیں خوب جی بھر کے برستے نورِ طیبہ میں
سحابِ نور ہے درکار ہم ظلمت کے ماروں کو
مری چشمِ رواں کی بس دوا ہے خاکِ پا تیری
یہی درکار ہے بہرِ شفا، ان آبشاروں کو
مٹاتے کیوں نہ باطل کو سوارِ دوشِ احمد ہیں
ولایت اور امامت آپ نے دی شہسواروں کو
سرِ کوثر وہی سیرابِ رحمت ہو سکے گا جو
امیر المومنیں گردانتا ہے چاروں یاروں کو
یہ اب تک تین سو تیرہ کی جاں بازی سے ثابت ہے
فرشتوں کی مدد آتی ہے تیرے جاں نثاروں کو
مقامِ مصطفی ان کو نظر آہی نہیں سکتا
لگا کر بغض کی عینک وہ پڑھتے ہیں سپاروں کو
خدا کے بعد افضل آپ کی ہی ذات کو جانا
پڑھا جب چشمِ الفت سے کلام ِ رب کے پاروں کو
سبوئے جانِ منظرؔ میں چھلکتی نعتِ احمد ہے
کہ صہبائے رخِ زیبا ہے کافی بادہ خواروں کو