تو سنگِ درِ یار سلامت ہے؟ جبیں بھی؟
گویا کہ فسانے میں بڑے جھول رہے ہیں
تم محو تکلم جو نہیں ہو تو یہ کیا ہے
اشعار بھلا کس کی زباں بول رہے ہیں
آواز کھنکتی ہے سماعت میں ابھی تک
الفاظ ابھی کان میں رس گھول رہے ہیں
تم درجہِ احسان کی تکیلِ مجسم
ہم دستِ طلبگار ہیں ، کشکول رہے ہیں
بانہوں سی کشادہ ہیں طلسمات کی شاخیں
ہم دشتِ خرابات میں پر تول رہے ہیں
دریوزہ گرِ عشق کی تقدیر کے صدقے
وہ ذائقے چکھے ہیں کہ انمول رہے ہیں
عریاں ہوا جاتا ہے کوئی واقعی ناصر
یا بندِ قبا شمس و قمر کھول رہے ہیں