تُم بہت گہری اُداسی کی وہ کیفیت ہو
جو مری رُوح پہ اک عمر سے طاری ٹھہری
تُم نے جب لوحِ تنفس پہ لبوں سے لکھا
حرمتِ لوح و قلم جان سے پیاری ٹھہری
کون ہیں ہم کہ تری شئے پہ سوالات کریں
زندگی تھی ، کہ بہر حال تمہاری ٹھہری
تیری اُلجھی ہوئی سانسوں کے بطن سے پھوٹی
وہ خموشی ، کہ جو الفاظ پہ بھاری ٹھہری
عمر بھر اِسم رہا وِرد کی صورت ، لب پر
تُو وہ تسبیح ، کہ ہر حال میں جاری ٹھہری