تُوعنایتوں کا مجاز ہے، مری خواہشیں مرے نام کر
مری راحتوں کو عروج دے، مری دھڑکنوں میں قیام کر
مرا ہجر زاد نصیب ہے تری طلعتوں کے گمان تک
کسی خوابِ شوق میں آ ذرا، کسی رتجگے سے کلام کر
پسِ حرفِ عجز ہیں منتظر، مری جان و جسم کے سلسلے
مری حسرتوں کی زمین پر مری حیرتوں میں خرام کر
اِسی ایک کیف سے جوڑ دے،مرے روز و شب کی حلاوتیں
مری صبح، صبحِ درود ہو، مری شام، شامِ سلام کر
مری حرف گاہِ نیاز کے سبھی اہتمام ہیں مضمحل
مری بات صیغۂ خام ہے، اسے تام کر، اسے عام کر
سبھی قافلے ہیں رواں دواں سوئے شہرِ ناز، بس ایک مَیں
سرِ رہگزارِ خیال پر تری یاد بیٹھا ہوں تھام کر
مری مدحتوں کی نیاز پر، مری نسبتوں کے جواز پر
مَیں غُلام ابنِ غُلام ہوں، مری نسل نسل غُلام کر
مجھے حاضری سے نہال کر، مجھے باریابی میں ڈھال دے
مرے بے نمود نصیب کو کبھی رشکِ ماہِ تمام کر
تری دسترس میں ہیں یا نبی ! مری قُربتیں، مرے فاصلے
تُو خیالِ شوق کی اوٹ سے رُخِ دید بر لبِ بام کر
ترے اذن پر ہے مدارِ کُل، یہ اثاثہ کیا، یہ بُلاوا کیا
تُو سحر کو دستِ مُراد دے، تُو صبا کو وقفِ پیام کر
کفِ عرضِ حال ہے منفعل، لبِ تابِ شوق ہے مضمحل
جو اُجال لاتی ہے خواب کو، اُسی اَن کہی کو مدام کر